جدھر دیکھو ستمگر بولتے ہیں
میری چھت پر کبوتر بولتے ہیں
ذرا سے نام اور تشہیر پا کر
ہم اپنے قد سے بڑھ کر بولتے ہیں
کھنڈر میں بیٹھ کر ایک بار دیکھو
گئے وقتوں کے پتھر بولتے ہیں
سنبھل کر گفتگو کرنا بزرگو
کہ اب بچے پلٹ کر بولتے ہیں
کچھ اپنی زندگی میں مر چکے ہیں
کچھ ایسے ہیں جو مر کر بولتے ہیں
جو گھر میں بول دیں تو رہ نہ پائیں
جو ہم سب گھر کے باہر بولتے ہیں
ملک زادہ جاوید
No comments:
Post a Comment