چھن جائے گا یہ سایۂ الفت مِرے سر سے
گر جائے گا یہ آخری پتا بھی شجر سے
میں درد کی اس آخری منزل پہ کھڑی ہوں
گرتا نہیں جب اشک کوئی دیدۂ تر سے
گزرے گا حدیں توڑتا سیلابِ محبت
یہ عشق کا سودا ہے اترنا نہیں سر سے
شمشیر بکف پھرتی ہیں باہر کی ہوائیں
بچوں کو لیے بیٹھی ہوں گھر میں اسی ڈر سے
اک حسرت دیدار کی خاطر میں سر شام
ہر روز گزرتی ہوں تِری راہ گزر سے
پتھر لیے تیار ہیں سب اہلِ تماشہ
شاید کسی مجنوں کو گزرنا ہے ادھر سے
قرطاس پہ ماضی کے تِرا عکس تراشا
پھر رنگ بھرا نام لکھا خونِ جگر سے
خواہش ہے اسی ہجر کے صحرا میں کٹے زیست
مر جاؤں اسی پیاس میں بادل نہیں برسے
عزت نہیں کرتا میری چادر کی مگر خود
گرنے نہیں دیتا کبھی دستار کو سر سے
کرتا تِری یادوں کا بدن زیب ہے میرے
خوشبو تِری اطراف میں پھیلی ہے سحر سے
پرچھائیاں کمرے میں مچلتی ہیں ہر اک سمت
آتی ہیں صدائیں تِری دیوار سے در سے
فرح کامران
No comments:
Post a Comment