Wednesday, 17 February 2021

اس کی نظر کا مجھ پہ کچھ ایسا اثر ہوا

 اس کی نظر کا مجھ پہ کچھ ایسا اثر ہوا

دل تھا صدف مثال برنگ گُہر ہوا

وہ شوخیاں تھیں اور نہ وہ رنگ روپ تھا

کل میں بہت اداس اسے دیکھ کر ہوا

ایثار اور وفا کی مِرے داستاں یہ ہے

جب بھی وطن پہ وار ہوئے میں سِپر ہوا

وہ حادثہ تو کوئی بڑا حادثہ نہ تھا

یہ اور بات دل💖پہ زیادہ اثر ہوا

ایسا بھی ایک در ہے اسی کائنات میں

اس در کا جو فقیر ہوا تاجور♚ ہوا

اب جا کے مجھ کو سرد شبستاں ہوا نصیب

برسوں تمام جسم پسینے میں تر ہوا

دہشت زدہ فضاؤں سے وہ بے نیاز تھا

جب اس کا گھر جلا ہے تو اس پر اثر ہوا

یاد آ گئی تھی مجھ کو شہیدِ وفا کی پیاس

دریا کو دیکھ کر جو مِرا دل💖 شرر ہوا

پتھر بھی پھینکتے کوئی آتا نہیں ادھر

بوڑھے شجر کی طرح جو میں بے ثمر ہوا

جس دن مِری غزل نے چھوئے اس کے لب بشیر

اس دن مِری غزل کا سفر معتبر ہوا


بشیر فاروقی

No comments:

Post a Comment