ہم اداکار ہیں، بیمار کہاں ہوتے ہیں
ورنہ بیمار، اداکار کہاں ہوتے ہیں
اپنے یاروں کی پزیرائی سے جلنے والے
یار بنتے ہیں، مگر یار کہاں ہوتے ہیں
کچھ تو آتے ہیں یہاں وقت گزاری کے لیے
سب تماشائی پرستار کہاں ہوتے ہیں
حسن تعریف کا محتاج ہوا کرتا ہے
ورنہ مہتاب ضیا بار کہاں ہوتے ہیں
ایک میت پہ کرائے کے فُغاں کیش ملے
سب عزا دار، عزا دار کہاں ہوتے ہیں؟
یہ زبوں حال و زیاں کار سے پھرنے والے
اپنی مرضی سے زیاں کار کہاں ہوتے ہیں
اب نئی پود کے مجنوں کو بتایا جائے
دشت کیا چیز ہے؟ کُہسار کہاں ہوتے ہیں
آپ لوٹ آئے مگر سبز گھڑی بیت گئی
ہم خزاؤں میں ثمر بار کہاں ہوتے ہیں
عصر کے ڈھلتے ہوئے سائے نے دریافت کیا
سر اتر جائیں تو سردار کہاں ہوتے ہیں
فائق ترابی
No comments:
Post a Comment