Wednesday, 17 February 2021

جس طرف جائیے گرتی ہوئی دیوار ملے

 جس طرف جائیے گرتی ہوئی دیوار ملے

اس خرابے کو الٰہی کوئی معمار ملے

اہلِ دل حق سے بغاوت تو نہیں کر سکتے

جانے کیا جرم تھا ان کا جو سرِ دار ملے

میں تِرے سوزِ محبت کا امیں ہوں ورنہ

کتنے سورج مِرے اشکوں کے خریدار ملے

نیند آتی ہے کہاں زیست کے ہنگاموں کو

حادثے خواب کے عالم میں بھی بیدار ملے

میں ہوں پتھر تو کسی راہ کا پتھر نہ بنا

آئینہ ہوں تو مجھے آئینہ بردار ملے

وہم کے نقش تھے یا ذوقِ نظر کے شہکار

کچھ خد و خال سرِ پردۂ دیوار ملے

تھے وہ مہتاب کے آنسو کہ سحر کی کرنیں

کچھ رگِ جاں میں اترتے ہوئے انوار ملے

کاش آ جائے مِری سمت بھی اس کا جھونکا

وہ ہوا جس کو تِری سانس کی مہکار ملے

شکریہ اے غمِ دل تیری بدولت ہی سہی

رات جاگے تو نئی صبح کے آثار ملے

تیرے آنگن کی ہوا سے یہ توقع تو نہ تھی

ہر گلی میں تِری پازیب کی جھنکار ملے

رات احساس کے در پر کوئی دستک نہ ہوئی

دل کی دہلیز پہ بکھرے ہوئے کچھ ہار ملے

پسِ خاموشئ دریا کئی طوفاں ہیں بپا

کیا عجب ہے جو ہمیں بھی لبِ گفتار ملے

کل تھا وہ رنگِ بہاراں کہ نظر جل اٹھی

شاخ در شاخ دہکتے رخسار ملے

جب بھی احساس کے زینے سے گزرنا چاہوں

کوئی وجدان کے جلووں کا نگہدار ملے

اے حزیں شہرِ نگاراں میں گئے تھے ہم بھی

بیشتر سنگ ملے آئینے⌗ دو چار ملے


حزیں صدیقی

No comments:

Post a Comment