Saturday, 13 February 2021

چڑھتے دریاؤں کا نقصان ہوا کرتا تھا

 چڑھتے دریاؤں کا نقصان ہوا کرتا تھا

قہقہہ، صبر کا اعلان ہوا کرتا تھا

اس جگہ روح کی زنجیر پڑی ہوتی تھی

اس جگہ جسم کا زِندان ہوا کرتا تھا

چار ہی رنگ تھے اور وہ بھی بہت پھیکے تھے

میں تِرے ہونٹ سے انجان ہوا کرتا تھا

دوستا اب مجھے مرنے کی بہت جلدی ہے

پہلے پہلے تو میں حیران ہوا کرتا تھا

کوری چِٹھی میں مہکتے تھے چھبیلے بادل

دشت کچھ دیر پریشان ہوا کرتا تھا


علی زیرک

No comments:

Post a Comment