آئے گی جب بہار تو بن جائیں گے گلاب
ظلمت کدے میں دل کے جو جلتے ہیں ماہتاب
یہ کس کی روشنی نے سنوارا ہے اس طرح
خود اپنا عکس دیکھ کے مجھ پر کھلے ہیں باب
ذہن و خیال میرا بہت دور تک گیا
رکھے ہوئے جو پائے کتابوں میں کچھ گلاب
ہے گھور سا اندھیرا جو رہتا ہے چار سُو
بے خواب ان نگاہوں میں کتنا ہے اضطراب
اس نے ہمیں لکھا ہے گزرتی ہے دل پہ جو
اس طرح زخم دل دکھانے سے کرنا تھا اجتناب
دھوکہ نظر کا، پیاس کی شدت ہے یا گمان
صحرا میں بار بار نظر آتے ہیں سراب
کیونکر صبیحہ دیتا وہ الزام بے رُخی
اس کا بھی تو مزاج رہا جیسے سیم آب
صبیحہ خان
No comments:
Post a Comment