Saturday, 13 February 2021

آئے گی جب بہار تو بن جائیں گے گلاب

 آئے گی جب بہار تو بن جائیں گے گلاب

ظلمت کدے میں دل کے جو جلتے ہیں ماہتاب

یہ کس کی روشنی نے سنوارا ہے اس طرح

خود اپنا عکس دیکھ کے مجھ پر کھلے ہیں باب

ذہن و خیال میرا بہت دور تک گیا

رکھے ہوئے جو پائے کتابوں میں کچھ گلاب

ہے گھور سا اندھیرا جو رہتا ہے چار سُو

بے خواب ان نگاہوں میں کتنا ہے اضطراب

اس نے ہمیں لکھا ہے گزرتی ہے دل پہ جو

اس طرح زخم دل دکھانے سے کرنا تھا اجتناب

دھوکہ نظر کا، پیاس کی شدت ہے یا گمان

صحرا میں بار بار نظر آتے ہیں سراب

کیونکر صبیحہ دیتا وہ الزام بے رُخی

اس کا بھی تو مزاج رہا جیسے سیم آب


صبیحہ خان

No comments:

Post a Comment