اک نظر ڈال کے مجھ پر وہ گزر جاتا ہے
وہ مِرے شہر سے ہوتا ہُوا گھر جاتا ہے
روز کہتا ہے کہ؛ اب ترکِ تعلق کر لو
روز پھر خواب نئے آنکھ میں بھر جاتا ہے
چاندنی ہو تو بہت جھُوم کےآتی ہے ہوا
چاند چھپ جائے تو دریا بھی اتر جاتا ہے
یوں بُجھا رکھی ہے یہ شمعِ فروزاں کہ یہاں
روز پروانہ کوئی عشق میں مر جاتا ہے
چشمِ اُلفت ہو کُوئے یار ہو اور مست فضا
حسن پھر اور ذرا اور نکھر جاتا ہے
میں تخیل کے نہاں خانے میں جب لاؤں اسے
خود بخود لمحۂ موجود سنور جاتا ہے
پھول مُرجھاتا نہیں، رُوپ بدلتا ہے فقط
بن کے خوشبو وہ ہواؤں میں بکھر جاتا ہے
عشق اور حسن جو مل جائیں اگر قسمت سے
عالمِ شوق میں دریا بھی ٹھہر جاتا ہے
فرح کامران
No comments:
Post a Comment