Saturday, 13 February 2021

رقصاں ہیں بگولے جو تہہ آب نہ توڑے

 رقصاں ہیں بگولے جو تہہِ آب، نہ توڑے

دریا کا ارادہ ہے کہ گرداب نہ توڑے

تُو دشتِ ملامت کی مسافت کو چلا ہے

اے کاش محبت تِرے اعصاب نہ توڑے

گرنے ہی سے آتا ہے سنبھلنے کا ہنر بھی

آنکھیں نہیں کھُلتیں جو کوئی خواب نہ توڑے

ہاتھوں میں لیے ہاتھ اماوس سے گزر آئے

تاروں کا غرور اب شبِ مہتاب نہ توڑے

اس ضبط کی مٹی پہ بھروسہ تو بہت ہے

یہ بند اگر یاد کا سیلاب نہ توڑے


ظل ہما

No comments:

Post a Comment