مکیں اِدھر کے کسی دن اُدھر گئے، تو گئے
کہ خاک زادے کبھی عرش پر گئے تو گئے
جُھکے نہیں ہیں یہ سر، اِس لیے سلامت ہیں
خدا نہ کردہ، ستم گر سے ڈر گئے، تو گئے
کوئی طلسم، کوئی اسم پوچھ لو ہم سے
ہم اب جو عشق کی معراج پر گئے تو گئے
یہ دین تھوڑی ہے تم جس سے کٹ کے جی لو گے
میاں، یہ عشق ہے، اس سے مُکر گئے تو گئے
تمہارا ہجر اور اس پر یہ ٹوٹتے ہوئے خواب
ہماری نیند کو برباد کر گئے، تو گئے
وفا کے نُور میں اُجلے ہوئے دو جسم رضا
دعا کی دوسری جانب اتر گئے، تو گئے
احمد رضا راجا
No comments:
Post a Comment