لگتی ہے چار سُو مجھے پھیلی ہوائے گُل
راہوں میں کوئی بیٹھا ہے شاید سجائے گل
دیکھا جو اس نے پیار سے آنکھوں میں جھانک کر
کتنے سِمٹ کے آئے تھے چہرے پہ ہائے گل
دل ہم سے کر رہا ہے یہ جب سے شگفتگی
شانوں پہ ڈال رکھی ہے تب سے ردائے گل
آنکھوں سے پڑھ رہا ہے وہ رُوداد رات کی
ہر بار مجھ کو دیکھ کے یوں مسکرائے گل
مہکار سے بدن کو مِرے گدگدائے وہ
ایسی ادا سے مجھ کو بھی آ کر منائے گل
پھیلی ہوئی ہے چاندنی ساری یہاں وہاں
چھائی ہوئی ہے چہرے پہ جب سے ضیائے گل
رنگوں سے سج گیا ہے مِرا گلستان اب
بادِ بہار گائے کبھی گنگنائے گل
اب شاعری میں اس کی مہک آ گئی کہیں
آنے لگی ہے لفظوں میں جیسے ادائے گل
ہر پھول، ہر لڑی سے محبت ٹپک رہی
کوئی نہ سیج سے ابھی آ کے ہٹائے گل
کیا سمجھے لطف چہروں کے رنگ و بہار کا
جو مُبتلائے دل تھے ہُوئے مُبتلائے گل
موسم بھی تھا بہار کا رنگین تھی فضا
'بلبل نے اور کچھ نہیں دیکھا سوائے گل'
طوفان جو ہواؤں کا آیا تھا ایک شب
چُن چُن کے ہم نے سارے چمن سے اُٹھائے گل
گُونجے ہیں اب صداؤں سے پھُولوں کی میرے کان
شاید بُلا رہی ہے چمن میں نوائے گل
پیغام ہو دیا کوئی محبوب کا مجھے
ہر بار مجھ کو دیکھ کے یوں مُسکرائے گل
جب راز وصلِ شب کے وہ سب کھولنے لگے
گھبرا کے ہم نے رعنا جی سارے چھُپائے گل
رعنا حسین چندا
No comments:
Post a Comment