تیر اس بار نشانے کی طرف سے آیا
یعنی اک زخم نہ آنے کی طرف سے آیا
کارِ دنیا نے اب الجھایا ہے ایسا کہ مجھے
دھیان اپنا بھی زمانے کی طرف سے آیا
ہر گُلِ تازہ میں خوشبوئے گزشتہ پائی
ہر نیا خواب، پرانے کی طرف سے آیا
راستہ دیکھتے رہتے تھے کہ آئے گا کوئی
اور جسے آنا تھا، جانے کی طرف سے آیا
اب تو بچنے کی کوئی راہ نہیں ہے کہ وہ شخص
یاد کچھ اور بھلانے کی طرف سے آیا
آفتاب حسین
No comments:
Post a Comment