Tuesday, 16 February 2021

گھر میں جب بیٹیاں نہیں ہوں گی

 گھر میں جب بیٹیاں نہیں ہوں گی

پیڑ پر ٹہنیاں نہیں ہوں گی

غم سے سمجھوتا کر لیا دل نے

اب یہاں سِسکیاں نہیں ہوں

میں کہ دورِ جدید کی لڑکی

پاؤں میں بیڑیاں نہیں ہوں گی

واپسی کا ہے سوچنا بے سود

اب جلی کشتیاں نہیں ہوں گی

اب دِیوں کو بچانا واجب ہے

آندھیاں مہرباں نہیں ہوں گی

بارشوں کے سفر پہ نکلے ہو

سر پہ اب چھتریاں نہیں ہوں گی

یہ مسلسل رہیں گی میرے ساتھ

ہجر میں چھٹیاں نہیں ہوں گی

دست و بازو بنا ہے بھائی مِرا

کوششیں رائیگاں نہیں ہوں گی

یا قلم ٹوٹ جائے گا بلقیس

یا مِری انگلیاں نہیں ہوں گی


بلقیس خان

No comments:

Post a Comment