پہلے ہی عمر بیت رہی ہے مِری اداس
اس پر تِرا گریز کرے اور بھی اداس
تیرے عدم وجود کا احساس ہو گیا
پہلی نگاہ میں تِری بستی لگی اداس
مغموم کر گیا مجھے اک دوست کا سوال
تُو صرف لگ رہا ہے کہ ہے واقعی اداس
وہ آنکھ بند ہو تو کرے بین روشنی
وہ چاند جب نہ ہو تو رہے تیرگی اداس
مجھ کو نہ فرق خاص کوئی ہجر سے پڑا
رہتے ہیں بس لباس ،بٹن اور گھڑی اداس
دل کی تمام شوخیاں معدوم ہو گئیں
بجھ سا گیا ہے دیکھ کے صورت تِری اداس
اک عکسِ دل پذیر نے اس کو غزل کیا
اک نظم لکھ رہا تھا میں اچھی بھلی اداس
جچتی نہیں فسردگی دے کر مئے وصال
ہوتے نہیں ہیں بانٹ کے اچھے سخی اداس
خوش باش تھا حصارِ غمِ ہجر میں قمر
مدت کے بعد آئی خوشی کر گئی اداس
قمر آسی
No comments:
Post a Comment