میں اپنے دور کا شاعر ہوں
ہر دور سے ہو کر آیا ہوں
حافی سے ہے تہذیب چرائی
زریون کی مستی لایا ہوں
نجمی کے پنجرے سے اڑ کر
جنگل میں سیدھا آیا ہوں
عامر کے انداز میں سن لو
جالب کی بغاوت لایا ہوں
گلزار کی خوشبو ساتھ لیے
میں سرحد توڑ کر آیا ہوں
جون کو مُرشد مانا ہے
تعویذ محسن سے لایا ہوں
بچپن میں فیض کو سنتا تھا
فراز کو پڑھ کر آیا ہوں
ساغر سے درویشی سیکھی
ناصر سے چرچہ لایا ہوں
درد کے درد کو پالا ہے
اور میر سے مصرعے لایا ہوں
غالب میرا ساقی ہے
اور جگر سے پیالہ لایا ہوں
امرتا روٹھی بیٹھی ہے
ساحر کو منانے لایا ہوں
اک یار منانا ہے مجھ کو
میں بُلھا بن کر آیا ہوں
وارث کا عشق حقیقی تھا
میں ہیر مجازی لایا ہوں
اقبال کو ہاتھ نہیں ڈالا
بس پاؤں چوم کر آیا ہوں
واصف اسلم
No comments:
Post a Comment