Monday, 15 February 2021

میں اپنے دور کا شاعر ہوں

 میں اپنے دور کا شاعر ہوں

ہر دور سے ہو کر آیا ہوں

حافی سے ہے تہذیب چرائی

زریون کی مستی لایا ہوں

نجمی کے پنجرے سے اڑ کر

جنگل میں سیدھا آیا ہوں

عامر کے انداز میں سن لو

جالب کی بغاوت لایا ہوں

گلزار کی خوشبو ساتھ لیے

میں سرحد توڑ کر آیا ہوں


جون کو مُرشد مانا ہے

تعویذ محسن سے لایا ہوں

بچپن میں فیض کو سنتا تھا

فراز کو پڑھ کر آیا ہوں

ساغر سے درویشی سیکھی

ناصر سے چرچہ لایا ہوں

درد کے درد کو پالا ہے

اور میر سے مصرعے لایا ہوں

غالب میرا ساقی ہے

اور جگر سے پیالہ لایا ہوں


امرتا روٹھی بیٹھی ہے

ساحر کو منانے لایا ہوں

اک یار منانا ہے مجھ کو

میں بُلھا بن کر آیا ہوں

وارث کا عشق حقیقی تھا

میں ہیر مجازی لایا ہوں

اقبال کو ہاتھ نہیں ڈالا

بس پاؤں چوم کر آیا ہوں


واصف اسلم

No comments:

Post a Comment