Monday, 15 February 2021

سنگ تہمت کا ہدف میرا گریبان بنے

 سنگِ تہمت کا ہدف میرا گریبان بنے

پھر تِرے گاؤں کی مٹی سے نمکدان بنے

اب تو خوابوں کے تعطل کا زمانہ آیا

اب تو مشکل سے ملاقات کا امکان بنے

ہر نیا شخص نیا زخم لگاتا جائے

اس قدر پھول تو مل جائیں کہ گلدان بنے

اپنے اجداد کی پہچان نہیں تھی جن کو

آج وہ لوگ مِرے شہر کی پہچان بنے

پہلے اک اسمِ مُبیں لوحِ سخن پر اترا

بعد میں بحریں بنیں، بعد میں اوزان بنے

میری تصویر بناتے ہو مگر دھیان رہے

آنکھ حیران بنے، زلف پریشان بنے


فائق ترابی

No comments:

Post a Comment