کون سنے فریاد رے سائیاں
تن مٹی کا پنجرہ سائیں
روح کوئی پنچھی ہو جیسے
اور سانسیں صیاد
کون سُنے فریاد
کون سنے فریاد رے سائیاں
کون کرے آزاد
چاروں اور سلاخوں جیسے
لمبے لمبے سال
پنکھ پھیلا کے کرے دعائیں
بدل نہ پائے حال
رے سائیاں
کیسا ہے یہ جال
دِکھنے میں جو ریشم جیسا
پر چھُونا دشوار
کانٹوں سے لبریز ہو جیسے
اس کی ہر اک تار
رے سائیاں
ہر سُو مار و مار
انسانوں کو کاٹ رہے ہیں
مل جل کر انسان
لڑتے لڑتے اک دُوجے کی
بھُول گئے پہچان
رے سائیاں
یہ تیرے انسان
اک شاعر کی رُوح بچاری
تن کے پنجرے میں سہمی سی
روز کرے فریاد
رے سائیاں
ظالم آدم زاد
رے سائیاں ظالم آدم زاد
عبداللہ سفیر
No comments:
Post a Comment