قیدی
میں سوچتا ہوں
کہ میرے زنداں کے باقی قیدی کہاں گئے ہیں؟
کہاں گئے ہیں خبر نہیں ہے
مگر میں اب تک غلام ہوں
اور کسی مسیحا کی آس میں ہوں
وہ آئے گا اور مجھے رِہائی دِلائے گا وہ
یہ ایک سچ ہے کہ دِھیرے دِھیرے میں مر رہا ہوں
گھُٹن بہت ہے
فضا عجب ہے
عجب اُداسی سی چھا رہی ہے
میں اپنے زِنداں کی کھڑکیوں سے
زرا سا باہر کو دیکھتا ہوں
یہ کتنا تاریک آسماں ہے
ہواؤں کا رُخ مُڑا ہوا ہے
ہواؤں میں اتنا زہر کس نے ملا دیا ہے
کہ سانس لینا بھی اس فضا میں حرام ہے اب
میں اپنے زِنداں میں بیٹھے بیٹھے
بہت سے خوابوں کو بُن رہا ہوں
مگر بہت سے عجب سوالوں نے
ذہن میں گھر کیا ہوا ہے
کہاں گیا وہ مِرا مسیحا؟
مجھے بچانے جو آ رہا تھا
کہیں پہ تھک کے وہ گِر گیا ہے
وہ مر گیا ہے
حمزہ سواتی
No comments:
Post a Comment