کہیں سے روز ہی آتی ہے یہ صدا مجھ کو
میں ایک سانس کی دوری پہ ہوں بُلا مجھ کو
میں اس وجود میں اس کو پسند آیا نہیں
خدائے کُن! یہ گزارش ہے، پھر بنا مجھ کو
میں زہر پی کے بھی زندہ رہوں گا صدیوں تک
پہ شرط یہ ہے کہ تُو ہاتھ سے پِلا مجھ کو
وہ پہلے پہل مِرے تجربے کا قائل تھا
پھر اس کے بعد تو وہ پوجنے لگا مجھ کو
میں تیرے ہونے کی تصدیق چاہتا ہوں میاں
تو ساتھ ہے تو کوئی بات کر، رُلا مجھ کو
میں اس کے بعد بھی اچھا رہوں گا خوش ہوں گا
بچھڑتے وقت یہ معلوم ہی نہ تھا مجھ کو
رضوان عالم
No comments:
Post a Comment