رازوں سے پردہ اٹھانے کی جستجو
خاموشی اپنا وجود سرسراتی ہوا میں
تلاش کر رہی ہے
محبت نے اپنا آپ کسی تابوت میں
بند کر لیا ہے
اس کی زندگی کا واحد سہارا تابوت کی درز
سے آنے والی روشنی ہے
پتھریلے پہاڑوں سے جنگل کی طرف
جانے والے پرندوں نے
اپنا ارادہ ترک کر لیا ہے
کیونکہ جنگلی پیڑ پرندوں کی
جدائی میں خشک ہو گئے ہیں
انسان اپنے وجود سے
انکاری ہو کر خدا کی تلاش میں
نکل پڑا ہے
صحرا نے اپنے اندر دفن کئی راز
آخری مرتبہ ہوا کے حوالے
کر دئیے ہیں
چرواہے نے بھیڑیں ہانکنے کے لیے
پرندوں کی بولیاں سیکھ لی ہیں
ہر جاندار فطرت کے رازوں سے
پردہ اٹھانے کی جستجو میں ہے
مگر ناچار
خدا نے اپنے کئی راز
اپنے منتخب کردہ
برگزیدہ انسانوں، پیڑوں، اور پرندوں
کے سینے میں دفن کر لیے ہیں
زاہد خان
No comments:
Post a Comment