Saturday 23 April 2022

یہ طبیعت نہ کبھی ٹھور ٹھکانے سے رہی

 یہ طبیعت نہ کبھی ٹھور ٹھکانے سے رہی

منحرف اس سے زمانہ یہ زمانے سے رہی

آگ بھی آب سے ہوتی ہے اچانک پیدا

برق بے ابر نشیمن تو جلانے سے رہی

اس کی چاہت ہے تو جا جاکے منا لا اس کو

خود ندی آکے تری پیاس بجھانے سے رہی

اس جماعت نے سخاوت کے دہانے کھولے

وہ جو معمور قناعت کے خزانے سے رہی

میں نے شیشے کے غلافوں میں کیا ہے محفوظ

ان چراغوں کو ہوا اب تو بجھانے سے رہی

دشمن خاص سے اس شخص نے رشتہ جوڑا

دشمنی جس کے لئے سارے زمانے سے رہی

بات ہو وقت گزاری کی چلو  مان بھی لیں

شاعری ساز تری کوہ تو ڈھانے رہی


ساز دہلوی

No comments:

Post a Comment