یہ طبیعت نہ کبھی ٹھور ٹھکانے سے رہی
منحرف اس سے زمانہ یہ زمانے سے رہی
آگ بھی آب سے ہوتی ہے اچانک پیدا
برق بے ابر نشیمن تو جلانے سے رہی
اس کی چاہت ہے تو جا جاکے منا لا اس کو
خود ندی آکے تری پیاس بجھانے سے رہی
اس جماعت نے سخاوت کے دہانے کھولے
وہ جو معمور قناعت کے خزانے سے رہی
میں نے شیشے کے غلافوں میں کیا ہے محفوظ
ان چراغوں کو ہوا اب تو بجھانے سے رہی
دشمن خاص سے اس شخص نے رشتہ جوڑا
دشمنی جس کے لئے سارے زمانے سے رہی
بات ہو وقت گزاری کی چلو مان بھی لیں
شاعری ساز تری کوہ تو ڈھانے رہی
ساز دہلوی
No comments:
Post a Comment