بتوں کے کوچے سے ہم دلفگار ہو کے چلے
شکار کرنے کو آئے شکار ہو کے چلے
تِری نگاہ بہت مست ہے سنبھل کے ذرا
سمند ناز و ادا پر سوار ہو کے چلے
ٹھہر گئے وہ جہاں سرد باغ تھے گویا
اگر چلے تو نسیم و بہار ہو کے چلے
کسی کی آنکھ میں وہ انتظار ہو کے رہے
کسی کے دل سے شکیب و قرار ہو کے چلے
گلے لگا کے انہیں عذر پھر کیا میں نے
مِری گلی سے وہ جب شرمسار ہو کے چلے
نگاہِ یار کی پھرتی ہے بزم سے اے داغ
رقیب بھی مِرے یاروں کے یار ہو کے چلے
داغ دہلوی
No comments:
Post a Comment