بھڑکتی کیوں نہ مِری آتشِ انا پِھر سے
بنا ہے رونقِ محفل وہ بے وفا پھر سے
یہ آج گردشِ دوراں کہاں پہ لے آئی
میں ڈھونڈتا ہوں نیا کوئی آسرا پھر سے
نکل پڑے ہیں اچانک ہی اشکِ خون آلود
لو، آج پُھوٹ پڑا دل کا آبلہ پھر سے
وہ جس میں آئی نظرمنزلِ مراد مِری
تُو دے سکے گا وہی مجھ کو آئینہ پھر سے
اُبھر رہا ہے زمانے میں بعد مُدت کے
ستمگروں کے ستم کا وہ سلسلہ پھر سے
چراغِ زیست کوئی کس طرح جلے منصف
غموں کی تیز بڑی تیز ہے ہوا پھر سے
نوشاد منصف
No comments:
Post a Comment