Wednesday, 7 September 2022

سہما سہما جب اک مصرعہ غزل سنائے تم آنا

 سہما سہما جب اک مصرعۂ غزل سنائے تم آنا

رُوٹھی رُوٹھی گرم ہوا جب بارش لائے تم آنا

تپتے گُل کے دامن سے کیوں تم نے چُرائی خُوشبو ہے

اب جو سُرخی اخباروں کی آگ لگائے تم آنا

رستہ منزل خواب تصور سچائی بس اتنی ہے

دستک کوئی سناٹے کی آ کے جگائے تم آنا

میرے گھر کے دروازے پر کس نے لکھا ہے کاجل سے

ٹکڑا ٹکڑا کوئی آنچل جب لہرائے تم آنا

زاہد! کے گاؤں کا جہلم اب بھی پانی پانی ہے

ہر قصے کی زندہ کہانی جب بہہ جائے تم آنا


زاہد مختار

No comments:

Post a Comment