بچہ جمہورا
مہربان قدردان حیران پریشان
میری جان تیری جان
نیچے پان کی دکان اوپر گوری کا مکان
سب سے پہلے پاکستان
بچہ جمہورا
جی استاد
سچ بولے گا
بولوں گا
جو پوچھوں بتائے گا
بتاؤں گا
کیا دیکھا
قیامت دہشت ہلاکت جہالت
ندامت سیاست منافقت
بچہ جمہورا گھوم جا
استاد برسوں سے گھما رہے ہو
کبھی دائیں، کبھی بائیں
کبھی بوٹوں کی دکان
کبھی روٹی کپڑا مکان
کبھی لوٹوں کے حکمران
کبھی سڑکیں عالی شان
کیسے چلے کا پاکستان؟
خاموشی سے دھندہ کر میری جان
نہ پانی، نہ بجلی، نہ گیس
جس کی لاٹھی اس کی بھینس
پھر بھی جان سے پیارا دیس
وجیہہ وارثی
ہمارے لڑکپن کے زمانے کی مشہور نظم- پڑھنے سے زیادہ سننے میں مزہ آتا تھا-
ReplyDeleteمیں نے تو واقعی میں اپنے لڑکپن میں مجمع میں مداریوں سے کم و بیش ایسے ہی الفاظ بنفس نفیس سنے ہوئے ہیں۔
Delete