بہت سے راز ہیں اس میں جو میں پوشیدہ رکھتا ہوں
کسی موقعے پہ جو لہجے کو میں سنجیدہ رکھتا ہوں
مجھے لوگوں کے جھمگٹ سے ذرا الجھن سی ہوتی ہے
میں اپنے دوست دشمن سارے چیدہ چیدہ رکھتا ہوں
مخالف بھی مِرے یہ دیکھ کر حیران ہوتے ہیں
جہاں جاؤں وہاں سب ہی کو میں گرویدہ رکھتا ہوں
بشر سادہ طبع سب کے لیے ایک لقمۂ تر ہے
سبب ہے یہ کہ اپنی شخصیت پیچیدہ رکھتا ہوں
زمانے کی روش کو دیکھ کر چلنا ضروری ہے
خوشی میں قہقہے دکھ میں جو نم دیدہ رکھتا ہوں
بہت سے لوگ مجھ سے اس لیے بھی دور رہتے ہیں
مِری باتیں الگ ہیں، میں سرِ شوریدہ رکھتا ہوں
بہت میرے مخالف ہیں، مگر ہے یہ کرم احمد
کئی لوگوں کی چاہت ہے جو میں نادیدہ رکھتا ہوں
راحیل احمد
No comments:
Post a Comment