Wednesday, 7 September 2022

بہت سے راز ہیں اس میں جو میں پوشیدہ رکھتا ہوں

 بہت سے راز ہیں اس میں جو میں پوشیدہ رکھتا ہوں

کسی موقعے پہ جو لہجے کو میں سنجیدہ رکھتا ہوں

مجھے لوگوں کے جھمگٹ سے ذرا الجھن سی ہوتی ہے

میں اپنے دوست دشمن سارے چیدہ چیدہ رکھتا ہوں

مخالف بھی مِرے یہ دیکھ کر حیران ہوتے ہیں

جہاں جاؤں وہاں سب ہی کو میں گرویدہ رکھتا ہوں

بشر سادہ طبع سب کے لیے ایک لقمۂ تر ہے

سبب ہے یہ کہ اپنی شخصیت پیچیدہ رکھتا ہوں

زمانے کی روش کو دیکھ کر چلنا ضروری ہے

خوشی میں قہقہے دکھ میں جو نم دیدہ رکھتا ہوں

بہت سے لوگ مجھ سے اس لیے بھی دور رہتے ہیں

مِری باتیں الگ ہیں، میں سرِ شوریدہ رکھتا ہوں

بہت میرے مخالف ہیں، مگر ہے یہ کرم احمد

کئی لوگوں کی چاہت ہے جو میں نادیدہ رکھتا ہوں


راحیل احمد

No comments:

Post a Comment