Wednesday, 7 September 2022

پکارتی ہے مرا نام اندریں کوئی شے

 پُکارتی ہے مِرا نام اندریں کوئی شے

اُلٹ کے دیکھ لیا خود کو پر نہیں کوئی شے

تجھے خلوص کے دو گُھونٹ تک نہیں ملنے

کہیں بھی جا، تُو فقط ہے مِرے تئیں کوئی شے

بچھڑ گئے مِرے سب یار کشتیوں والے

نِگل گئی ہے انہیں کیا سمندریں کوئی شے

میں جب کہیں مِری تنہائیوں سے ملنے لگا

تو دندناتی ہوئی آ گئی وہیں کوئی شے

نہ جانے کون سے خدشات اُڑان بھرتے ہیں

پھڑکتی رہتی ہے سینے میں بے یقیں کوئی شے


فضل عباس

No comments:

Post a Comment