خواب آگیں
میں رنگین بستر کی خواب آگیں آغوش میں گم ہوں
اور ماما کی روشن انگلیاں میرے بال سنوارتی ہیں
مجھے بابا کی آرزو ہے
جس کی کُھردری ہتھیلی
مجھے چھو کر گلاب کر دیتی تھی
مجھے ماما کی روشن انگلیوں کے ساتھ ساتھ
بابا کی کُھردری ہتھیلی بھی چاہیے
ہاں، ہاں، مجھے وہ تمام ہاتھ چاہییں
جو میرے غم نچوڑ کر مسرت بخشیں
جو مجھے زوال سے ابھاریں
مجھے بارش میں اپنے ننگے پیروں کی ضرورت ہے
میں طلوعِ صبح کی پہلی کرن چُرا کر
آنچل میں چھپانا چاہتی ہوں
میں غروبِ شام کے منظر سے
کچھ اور رنگ ہتھیانا چاہتی ہوں
میں اب بھی تجھے ریت محل کی اوٹ سے دیکھتی ہوں
سرسراتی دیمک نے تجھ سے جڑا
ہر منظر کھوکھلا کر دیا ہے
کہکشاں بے رنگ دھاگے کی طرح
آکاش سے لٹک کر جالا بن چکی ہے
چیونٹیاں روٹی کے ہر ٹکڑے سے چمٹ کر
اسے تاراج کر رہی ہیں
مجھ سمیت پورا منظر
لڑکھڑانے سے پہلے سہارے ڈھونڈتا ہے
لیکن غیب سے ابھری
روشنی ہواؤں سے اَٹے پر اسرار چہرے
پھر سے دھونے لگی ہے
میں تجھے اس بچے کی طرح دیکھتی ہوں
جس نے سب کچھ کھو کر پھر سے پا لیا ہو
ہاں ہاں تم بھی سر سے ریت کی ٹوپی اتار کر
چاند کی جانب لپکو کہ ہم سب
اک نئے آغاز کی دہلیز تک آن پہنچے ہیں
فطرت سوہان
No comments:
Post a Comment