Wednesday, 7 September 2022

زبانیں چپ رہیں لیکن مزاج یار بولے گا

 زبانیں چپ رہیں لیکن مزاجِ یار بولے گا

کہ تُو با ظرف ہے کتنا تِرا کردار بولے گا

نئی نسلوں کو کس نے کیا دیا ہے دیکھیے لیکن

مِرے اشعار میں تہذیب کا معیار بولے گا

وہ جس نے کھائے ہیں دھوکے محبت کر کے اپنوں سے

وہی تو خون کو پانی گُلوں کو خار بولے گا

جہاں سچ بات کہنے کا ہو مطلب جان سے جانا

اسی محفل میں بس اپنا دل خوددار بولے گا

وہاں اعمال کو اپنے کوئی جُھٹلا نہ پائے گا

کہ یہ حصہ بدن کا جب سر دربار بولے گا

کوئی مانے نہ مانے پر محبت ہی حقیقت ہے

ابھی میں کہہ رہا ہوں کل یہی اخبار بولے گا

اگر خاموش کر بھی دی زباں رسمِ محبت میں

سرِ محفل مگر شایان! کا کردار بولے گا


شایان قریشی

No comments:

Post a Comment