سانس لیتا ہے خرابوں سے روا رکھتا ہے
درد ادراک کے لہجے کا مزا رکھتا ہے
معجزے وقت کی مُٹھی میں دبے رہتے ہیں
وہ جو بے زار تھا اب شوقِ دوا رکھتا ہے
زندگی جھیل کے منظر کی عبارت لیکن
دل ہی بے زار ہے طوفان اٹھا رکھتا ہے
اب کے جس شخص پہ باندھا ہے توکل یارو
اپنا ثانی نہیں اندھوں کے سوا رکھتا ہے
پوچھتے کیا ہو مِرے یار کے بارے لوگو
مرمریں جسم ہے موجوں سی ادا رکھتا ہے
وقت سنبھال کے رکھتا ہے شواہد سب کے
اک خدا ہے جو عدالت کو کھلا رکھتا ہے
کتنے لہجوں کو اذیت کی شباہت لکھوں
درد فنکار ہے، لہجہ بھی نیا رکھتا ہے
اک تعلق سے جُڑی یاد کی بابت لمحے
چند سِکے ہیں جو مزدور بچا رکھتا ہے
علی ساحر
No comments:
Post a Comment