میرا نہ آیا اب بھی ارادے سے باز دل
اس نے تو سنگ کر لیا اپنا گداز دل
پھر بھی لگائے رہتا ہوں سینے سے رات دن
ہے دل ہی زندگی میں مِری غم نواز دل
رہتی ہے نغمہ ریز ہر اک گام زندگی
چھپ کر بجاتا رہتا ہے ہر لمحہ ساز دل
دکھلائے روز روز نئی خواہشوں کے رنگ
ہو کر روایتی بھی ہے جِدت طراز دل
اس نے تو آزما لیا مجھ پر ہر ایک تیر
آتا نہیں ہے پھر بھی محبت سے باز دل
حیران کن خیال ہے نازک سی چیز کا
اک سنگدل سے کرنے چلا ساز باز دل
کمبخت دل نے کام بگاڑے ہیں عشق میں
اپنا وہ دل نہیں جو بنے کارساز دل
آنکھوں میں بن کے قطرۂ شبنم، لبوں پہ آہ
مقصود! فاش کرتا ہے خود اپنا راز دل
مقصود انور
No comments:
Post a Comment