Wednesday, 7 September 2022

میرا نہ آیا اب بھی ارادے سے باز دل

 میرا نہ آیا اب بھی ارادے سے باز دل

اس نے تو سنگ کر لیا اپنا گداز دل

پھر بھی لگائے رہتا ہوں سینے سے رات دن

ہے دل ہی زندگی میں مِری غم نواز دل

رہتی ہے نغمہ ریز ہر اک گام زندگی

چھپ کر بجاتا رہتا ہے ہر لمحہ ساز دل

دکھلائے روز روز نئی خواہشوں کے رنگ

ہو کر روایتی بھی ہے جِدت طراز دل

اس نے تو آزما لیا مجھ پر ہر ایک تیر

آتا نہیں ہے پھر بھی محبت سے باز دل

حیران کن خیال ہے نازک سی چیز کا

اک سنگدل سے کرنے چلا ساز باز دل

کمبخت دل نے کام بگاڑے ہیں عشق میں

اپنا وہ دل نہیں جو بنے کارساز دل

آنکھوں میں بن کے قطرۂ شبنم، لبوں پہ آہ

مقصود! فاش کرتا ہے خود اپنا راز دل


مقصود انور

No comments:

Post a Comment