بعد مدت کے خیال مے و مینا آیا
زندگی پھر مجھے جینے کا قرینہ آیا
ہر نفس زیست کے ماتھے پہ پسینہ آیا
یہ بھی جینا ہے کہ ایسا ہمیں جینا آیا
پھر سرِ بزم کوئی جام بکف آتا ہے
ترکِ توبہ کے تصور پہ پسینہ آیا
تہمتِ بادہ پرستی کا سزا وار ہوا
تیرا میکش جسے دو گھونٹ نہ پینا آیا
چہرۂ وقت سے الٹی نہ گئی ہم سے نقاب
کام اپنے نہ کبھی دیدۂ بینا آیا
تشنہ لب رکھا تِری چشمِ کرم نے ساقی
جب مجھے بادہ پرستی کا قرینہ آیا
ان کی آنکھوں میں چھلک آئے ہیں آنسو فطرت
میرے دامن میں امیدوں کا خزینہ آیا
فطرت انصاری
No comments:
Post a Comment