مری ناراض محبوبہ
تمہارے پیار کی لو سے
ہے روشن زندگی میری
تمہارے حسن کا چرچا
مِری آنکھوں میں رہتا ہے
تمہاری زُلف سے، رُخسار سے
میری عقیدت ہے
مگر یہ بھی حقیقت ہے
کہ ڈر سے چیختے جسموں کی آوازیں
مِرے کانوں میں پڑتی ہیں
تو جانِ جاں! میں اس لمحے
محبت بُھول جاتا ہوں
تِرا چہرہ، تِری آنکھیں
تِرا لہجہ، تِری باتیں
تِری مُسکان، میری جان
سب کچھ بُھول جاتا ہوں
مِری ناراض محبوبہ
تِری ناراضگی اپنی جگہ، لیکن
جہاں پر مُفلسی میں پِس رہے انسان بستے ہوں
جہاں مزدور کے بچے کھلونوں کو ترستے ہوں
جہاں روٹی جہاں کپڑا جہاں پر گھر نہیں ملتا
اگر سچ بات کہنی ہو تو اپنا سر نہیں ملتا
جہاں اپنے محافظ ہی بھرے بازار میں
غدار کہہ کر مار دیں گولی
جہاں سڑکوں پہ کھیلی جا رہی ہو خون کی ہولی
جہاں پر عصمتوں کو وحشتوں کے ناگ ڈستے ہوں
جہاں منزل نہ ہو اور چار سُو رستے ہی رستے ہوں
جہاں معصوم بچوں سے ہوس کی آگ بُجھتی ہو
جہاں آفات کی ماری سرِ بازار بِکتی ہو
جہاں بچے بِلکتے ہوں
جہاں مائیں سِسکتی ہوں
مجھے بتلاؤ، میری جاں
قلم سے میں وہاں پر عشقیہ نغمات کیا لکھوں
مِری ناراض محبوبہ
میں ڈر سے کانپ کر
گھر کی کسی نکڑ میں جا کر بیٹھ جاتا ہوں
قلم بس ساتھ ہوتا ہے
کبھی وہ خوب روتا ہے
کبھی میں خوب روتا ہوں
مِری ناراض محبوبہ
تمہاری زُلف سے رُخسار سے
میری عقیدت ہے
مگر یہ بھی حقیقت ہے
احمد نعیم ارشد
No comments:
Post a Comment