چراغ میں نے جلایا صدا فقیر نے دی
یونہی بھرا رہے کاسہ دعا فقیر نے دی
یہاں نہ فصل ہوئی اور نہ آسماں برسا
یہ میرے شہر کو کیا بد دعا فقیر نے دی
بنے بنائے ہوئے دو جہاں خدا نے دئیے
اور ان کو شکل یہاں خوشنما فقیر نے دی
یہ لوگ توڑتے پھرتے تھے ہر کسی کا دل
پھر ان کو ایک دن اس کی سزا فقیر نے دی
یہ عشق یوں بھی مِرے خون میں دہکتا تھا
اسے کچھ اور زیادہ ہوا فقیر نے دی
وگرنہ کس کے یہاں خدوخال روشن تھے
اس آئینے کو بھی ساری ضیا فقیر نے دی
قمر رضا شہزاد
No comments:
Post a Comment