Saturday, 19 August 2023

نہ زیادہ اور نہ کم میں ایک عورت ہوں

 نہ زیادہ اور نہ کم 


میں ایک عورت ہوں نہ زیادہ اور نہ کم

میں اپنی زندگی جیتی ہوں، جیسی کہ وہ ہے

میں اپنے بدن کے لیے اپنا اون خود کاتتی ہوں، تاگہ بہ تاگہ

کسی داستان ہومر کی تکمیل کے لیے نہیں 

نہ اس کے سورج کے لیے

میں اپنی زندگی جیتی ہوں 

اور میں دیکھتی ہوں، جو میں دیکھتی ہوں 

ہو بہو، جو کچھ کہ وہ ہے، اس کی شباہت، اس کا ظاہر 

گرچہ کبھی کبھار شکست کی ڈوبتی نبض جانچنے کی خاطر  

میں ظاہر کی پرچھائیں پر نظریں جماتی ہوں 

اور مستقبل کو ماضی کے بہی کھاتوں پر لکھتی ہوں

بازگشت ہے محض، بے صدا، صوت نہیں ہے کوئی

مجھے ابہام سے عشق ہے 

گفتار کی ڈھلوانوں اور گاؤں کی چھتوں سے پرندوں کی معدومیت کی بابت

مسافر شب کی تمثیل میں رچا ابہام

مجھے ابہام سے عشق ہے

میں ایک عورت ہوں، نہ زیادہ اور نہ کم

مارچ کے مہینہ میں 

بادام کے پیڑ میں پھوٹتے شگوفے

مجھے، میری بالکونی سے، فضاؤں میں اڑائے پھرتے ہیں

اسی آرزو کی لہر میں، اسی خواہش کی سرور میں

جسے زمان و مکان سے گزرے ہوؤں نے یوں بیان کیا تھا

مجھے اپنا لمس دو، میں اپنے گھوڑے چشموں پر لے آؤں گا

میں بے سبب رو پڑتی ہوں 

میں تم سے عشق کرتی ہوں، تم سے، جو تم ہو

نہ کہ اس رعونت کے نمائشی پیکر سے

نہ ہی اس کھوکھلے خود پرست سے 

اور میرے شانوں سے 

ایک صبح طلوع ہوتی ہے تم پر، غروب ہوتی ہے تم پر

جب میں تمہیں بانہوں میں سمیٹتی ہوں، کنار شب

لیکن سنو میں نہ آفتاب ہوں اور نہ ماہتاب 

میں ایک عورت ہوں، نہ زیادہ اور نہ کم

سو اگر تم چاہو، تم میرے قیس تمنا بن جاؤ 

لیکن میں چاہوں گی کہ مجھ سے یوں محبت نہ کی جائے

کہ میں گویا کسی کاغذ پہ چھپی رنگین تصویر ہوں

یا کوئی خیال جسے، ہرنیوں کے ہمراہ، کسی نظم میں باندھا گیا ہو

میں لیلیٰ کی چیخیں سنتی ہوں

کہیں دور، کسی خوابگاہ سے اٹھتی چیخیں، بے بس فریاد

مجھے قبیلے کے جشنِ عشرت کے نغمۂ نشاط کی 

گھٹتی بڑھتی لے کے زندان میں چھوڑ کر نہ جاؤ

ان وحشیوں کے لیے مت چھوڑو مجھے، کسی خبر کی طرح

میں ایک عورت ہوں، نہ زیادہ اور نہ کم 

میں ہوں، جو میں ہوں 

جیسے تم ہو، جو تم ہو

تم مجھ میں جاگزیں ہو اور میں تم میں جیتی ہوں 

تمہارے لیے، اور تمہارے واسطے 

ہمارے اس باہمی معمہ کا حل دیکھنے کی خواہش ہے مجھے

میں تمہاری ہوں جب اپنے کناروں سے شب نور چھلکاتی ہوں

لیکن میں کوئی سرزمین نہیں، جسے تم فتح کر لو 

میں کوئی سفر نہیں، جس کا آغاز و انجام ہو

میں ایک عورت ہوں، نہ زیادہ، نہ کم 

اور میں تھک جاتی ہوں 

ماہتاب کی نسوانی ماہواریوں سے

اور میرا گٹار، تار بہ تار، بیمار پڑ جاتا ہے 

میں ایک عورت ہوں 

نہ زیادہ

اور نہ کم


 شاعری محمود درویش 

اردو ترجمہ: شیراز راج 

No comments:

Post a Comment