رخ سے خورشید کے بادل جو سرک جاتا ہے
رنگ و انوار سے ہر ذرہ چمک جاتا ہے
اس قدر زور سے کیوں بھاگ رہے ہو لوگو
وقت سے تیز جو چلتا ہے وہ تھک جاتا ہے
رنگ و نکہت میں اگر ڈوبا ہوا ہو پیکر
ایک ہی پھول سے گلزار مہک جاتا ہے
فطرتاً فرش کے سینے پہ ٹپکنا چاہے
جو ثمر شاخ کی آغوش میں پک جاتا ہے
منزلیں راہ ہوئی جاتی ہیں راہیں منزل
راستہ اور کسی راستے تک جاتا ہے
اوڑھتے کچھ بھی نہیں راہ میں سونے والے
خود بخود ان کا بدن خاک سے ڈھک جاتا ہے
میں تو آوارہ طبیعت ہوں ہر اک سمت چلوں
ایک رستے پہ جو چلتا ہے بھٹک جاتا ہے
ہاتھ رکھتے ہو اچانک جو میری آنکھوں پر
دل کسی خواب کا چُھونے سے دھڑک جاتا ہے
دھوپ کی دھول یہاں اڑتی ہے اکثر لیکن
ابر آ جائے تو کچھ سایہ چھڑک جاتا ہے
از خود آغوشِ تغزل میں خمار آ جائے
جو نیا رنگ فضاؤں میں چھٹک جاتا ہے
ستنام سنگھ خمار
No comments:
Post a Comment