Friday 18 August 2023

بہت سے زخم جن کو مستقل مہمان رکھا ہے

 بہت سے زخم جن کو مستقل مہمان رکھا ہے

بدن کی قید میں کچھ درد کا سامان رکھا ہے

کبھی لگتا ہے کہ میں آسمان کو چُھو کے آئی ہوں

کبھی لگتا ہے رستے میں کوئی طوفان رکھا ہے

ہر اک لمحہ گماں کی دسترس میں کیا بتائیں ہم

کہاں اُمید رکھی ہے، کہاں ایمان رکھا ہے

تمہاری آنکھ میں ٹھہرا ہوا پانی بتاتا ہے

محبت کی تھی تم نے اور اس کا مان رکھا ہے

میرے آباء کے گھر کو بیچ کر مجھ سے وہ کہتا ہے

وہیں کمرہ پڑا ہے، اور وہیں دالان رکھا ہے

ہماری ہمتوں کی داد دے کر لوٹ جائے گا

ہمارے سامنے جس غم نے سینہ تان رکھا ہے


آئرین فرحت

No comments:

Post a Comment