اسی لیے تو خیالوں سے باندھ رکھے ہیں
یہ خواب آنکھ سے بینائی چھین لیتے ہیں
میں عام فہم سی باتیں بتانے آیا ہوں
کہ میرے پاس نہ غزلیں ہیں نہ قصیدے ہیں
ہمیں کسی کی محبت پہ کیا یقین رہے
ہمارے ساتھ فقط سازشیں ہیں، دھوکے ہیں
دِکھاؤ زور کبھی اپنے جیسے لوگوں پر
غریب لوگ تو چُپ چاپ جبر سہتے ہیں
اب ان پہ اور کمر توڑ بوجھ مت ڈالو
جو پیٹ کاٹ کے بچوں کی فیس دیتے ہیں
چلو، بنامِ شہیداں مباہلہ کر لیں
مِرے حریفوں سے کہہ دو اگر وہ سچے ہیں
اسلم رضا خواجہ
No comments:
Post a Comment