غم کی فصلیں اُگ جاتی ہیں کاٹیں گے ہم خوشیاں کیسے
اُجیارے کو ڈس جاتی ہیں مایوسی کی رتیاں کیسے
ہر اک چڑیا اُڑ جائے گی گھر کے پھیلے آنگن سے
تنہائی کے ڈیروں میں ہم ڈھونڈیں گے وہ سکھیاں کیسے
دن ڈھلنے کے سارے موسم آنکھ میں پنہاں رہتے ہیں
بیٹھ کے خالی دروازے پر یاد کروں وہ گلیاں کیسے
جو سردی کی راتوں میں تھی ہم دونوں کی سرگوشی
لیٹ کے تنہا بستر پر میں یاد کروں وہ بتیاں کیسے
وعدے کرنے والے اب تو پاس نہیں ہیں جو پوچھیں
ہم تو خود سے پوچھ رہے ہیں چار ہوئیں تھیں انکھیاں کیسے
رفتہ رفتہ پھیل رہی ہے ویرانی گُلدانوں میں
دھیرے دھیرے جھڑ جاتی ہیں پھولوں سے یہ پتیاں کیسے
انجم معین بلے
شریک حیات کی یاد میں
No comments:
Post a Comment