اشعار کی تخلیق میں جلتا ہے جگر کیوں
یا رب مجھے بخشا ہے یہ جاں سوز ہنر کیوں
غم عشق کی سوغات ہے سینے سے لگا لے
پھولوں کی تمنا ہے تو کانٹوں سے حذر کیوں
کچھ حد سے سوا ہیں مِرے غمخوار، وگرنہ
رہتی ہے مِرے حال پہ یاروں کی نظر کیوں
کل جس کو سر آنکھوں پر بٹھاتا تھا زمانہ
بیٹھا ہے سرِ راہ وہ اب خاک بسر کیوں
عارض کے گلابوں پہ اداسی کی یہ شبنم
نمناک ہیں آنکھیں تِری آج اے گلِ تر کیوں
پھر کون گیا پچھلے پہر بزم سے اٹھ کر
پھر سوگ کا عالم ہے یہ ہنگامِ سحر کیوں
پتھر کے سوا چاند! یہاں کچھ نہ ملے گا
بیٹھا ہے سجائے ہوئے شیشوں کا تو گھر کیوں
مہندر پرتاب چاند
No comments:
Post a Comment