ستارے بانٹتا ہے وہ ضیا تقسیم کرتا ہے
سنا ہے حبس موسم میں ہوا تقسیم کرتا ہے
اسی کی اپنی بیٹی کی ہتھیلی خشک رہتی ہے
جو بوڑھا دھوپ میں دن بھر حنا تقسیم کرتا ہے
اسے روکو کہ باز آئے سراسر ہے یہ پاگل پن
جو بہروں کے محلوں میں صدا تقسیم کرتا ہے
تمہاری یاد کچھ ایسے مِرے دل پر اترتی ہے
کہ جیسے روشنی شب میں دِیا تقسیم کرتا ہے
اسی سے مانگ تُو عرفان صادق چھوڑ دے سب کو
جو پتھر میں بھی کیڑوں کو غذا تقسیم کرتا ہے
عرفان صادق
No comments:
Post a Comment