Monday, 14 August 2023

زمیں سرک گئی کہ سر سے آسمان اٹھ گیا

 ضیاء محی الدین کے ساتھ اِک جہان اُٹھ گیا


زمیں سرک گئی کہ سر سے آسمان اُٹھ گیا

ضیاء محی الدیں کے ساتھ اک جہان اٹھ گیا

دیا تھا جو انہوں نے، وہ قلم تو میرے پاس ہے

ہے دُکھ کہ حُرمتِ قلم کا پاسبان اٹھ گیا

اسی کے دم قدم سے تھی بہارِ بزمِ فکر و فن

وہ لے اپنے ساتھ سارا گلستان اٹھ گیا

وہ اک ادارہ تھا، وہ اپنی ذات میں تھا انجمن

سخنوروں کو دے کے آن، بان، شان اٹھ گیا

زبان اور بیان کی بھی اک کسوٹی آپ تھے

کہوں میں کیا کہ *ناپا کا بھی نگہبان اٹھ گیا

جو علم کے جلائے تھے چراغ، وہ بُجھے نہیں

نقوشِ پا ہیں اب بھی، میرِ کاروان اٹھ گیا

زمین میں اُتر گیا، جو ایک پیڑ تھا گھنا

ہے چلچلاتی دھوپ، سر سے سائبان اٹھ گیا

بڑا تھا اک دماغ، جس کا حافظہ بلا کا تھا

کتابوں کا وہ چلتا پھرتا اک جہان اٹھ گیا

سوال بھی اٹھائے، جس نے خود جواب بھی دئیے

وہ لاجواب نکتہ بیں، وہ نکتہ دان اٹھ گیا

تراشے تھے جو ہیرے وہ چمک رہے ہیں آج بھی

صحافت و صدا کا تھا جو نگہبان اٹھ گیا

جو بیج اس نے بوئے تھے، وہ بن گئے ہیں اک شجر

وہ رنگ دے کے اپنے، ہو کے شادمان اٹھ گیا

ابھی تک اُس کے رنگ ہیں فضاؤں میں بسے ہوئے

ادھوری چھوڑ کر جو اپنی داستان اٹھ گیا

صدا و صوت کے رموز رکھ دئیے ہیں کھول کر

بسا دلوں میں پہلے، پھر وہ خوش بیان اٹھ گیا

عمر، ظفر، اِرم غنی کے ساتھ بھی سُنا اسے

وہ دے اپنی یادوں کاحسیں جہان اٹھ گیا

شعور و آگہی کی روشنی لُٹائی عمر بھر

ہے دکھ وہ ہم سے علم و فن کا پاسبان اٹھ گیا


عارف معین بلے

*National Academy of Performing Arts(NAPA) ناپا

No comments:

Post a Comment