کچھ ہوا حاصل نہ اب تک کوششِ بے کار سے
دیکھ لیں گے سر بھی ٹکرا کر در و دیوار سے
سیدھے سادے راستے پر کیا اٹھائیں ہم قدم
پاؤں لپٹے جا رہے ہیں راہِ نا ہموار سے
اک ذرا سی نیند آئی تھی کہ پھر چونکا دیا
تنگ ہم تو آ گئے اپنے دلِ بیدار سے
ناز تھا جن کارناموں پر کبھی ہم کو بہت
جانے کیوں وہ اب نظر آتے ہیں کچھ بیکار سے
ہم تو جانے کے لیے تیار ہیں یوں بھی مگر
چاہتا ہے جی بلائیں وہ ہمیں اصرار سے
عشق کی فضلی نہ جانے کون سی منزل میں ہیں
نام اپنا لے رہے ہیں، اور پھر کس پیار سے
سید فضل کریم فضلی
No comments:
Post a Comment