دو عشق تھے میرے دونوں میں مسئلہ نکلا
کتابیں بے زبان نكلیں محبوب بے وفا نکلا
صاحبِ عقل اتفاق سمجھے اہلِ دِل کرامت
گزرا تھا جہاں سے دیوانہ وہیں سے راستہ نکلا
بے کار ہی گئی مجھ پر طبیب کی مشقت بھی
زخم تھے گہرے نکلے درد تھا لا دوا نکلا
غم سارے شہر کے میرے گھر آتے ہیں زیارت کو
تم نے کیا جب برباد تب سے یہ سلسلہ نکلا
دل یہ چاہتا ہے میرا حشر ہی اٹھا دوں اب
کیوں نہ آئے قیامت پھر جب وہ نہ میرا نکلا
میں نے دیکھا ہے ملاپ آگ اور پانی کا بھی
آنکھ جس کی نم دیکھی دل جلتا ہوا نکلا
میں شرمندہ ہو گیا محفل میں کہ کر غزل
سب نکلے نام پرست کوئی نہ سخن آشنا نکلا
آفتاب چکوالی
آفتاب احمد خان
No comments:
Post a Comment