اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
تُو وہاں کیسی ہے مجھ کو، کیا بتائے گا جہاں
کیسے تیری یاد پھیلی، ہر گلی اور ہر مکاں
چاہتا ہوں پُھول بھِیجوں، پر تجھے کیسے وہاں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
غم کے بادل آ گئے ہیں، اب بھلا کیسے چھٹیں
ہجرتوں کی زد میں آ کر رات دن کیسے کٹیں
فاصلوں کی مُٹھیوں میں آ گئی ہے داستاں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
زندگی سے حسرتوں کا ساتھ کیسے چھوڑ دیں
ہم اُمیدوں کے شجر سے پُھول کیسے توڑ دیں
دیکھو تنہا رہ گئی مونا وہاں، اور میں یہاں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
مجھ کو اب تک تیرے وعدے تیری قسمیں یاد ہیں
چاہتوں کے دم سے میرے سب جہاں آباد ہیں
اب تِری آہٹ نہیں ہے، جس سے کھولوں کھڑکیاں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
راحتوں نے آنکھ کھولی کس طرح ہنستے ہوئے
ہر نظر پتھرا گئی ہے راستہ تکتے ہوئے
اب یہاں ملتے نہیں ہیں، تیرے قدموں کے نشاں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
تُو گئی تو ساتھ اپنے، ہر خوشی ہی لے گئی
وقت کی دہلیز پر اک نا اُمیدی دے گئی
بے بسی سے دیکھتا ہوں میں زمین و آسماں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
وہ گئے دن کی مسافت ساتھ چلنے کا جنوں
ایک لمحے کی جدائی، چِھن گیا میرا سکوں
رہ گئی ہیں ساتھ تیری یاد کی پرچھائیاں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
برتھ ڈے مونا مبارک، اے مِری جانِ وفا
اب اگرچہ کٹ گیا ہے گفتگو کا سلسلہ
سب در و دیوار، آنگن ہو گئے ہیں بے زباں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
ہر مسرت، ہر خوشی، ہر اِک تمنا، آرزو
نا اُمیدی کے سفر میں کھو گئی ہے جستجو
دوریوں میں کھو گئی ہے زندگی کی کہکشاں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
میں نے سوچا ہی نہیں تھا اس طرح ہو جائے گا
سارا رستہ دو قدم کے بعد ہی کھو جائے گا
چہچہاتے گُلستاں میں، ایک سونا آشیاں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
لمبی شامیں رہ گئی ہیں میرے جلنے کے لیے
دن ملے ہیں مجھ کو اب تو ہاتھ ملنے کے لیے
مولا! کتنا رہ گیا ہے, زندگی کا امتحاں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
اک تڑپ رہتی تھی تجھ کو مجھ سے ملنے کے لیے
ہمسفر جس کو چُنا تھا ساتھ چلنے کے لیے
اب تو تیری یاد میں ہی بس رہا ہے یہ جہاں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
پُھول پتے چاند تارے یاد کرتے ہیں تجھے
راستوں کے پیڑ سارے یاد کرتے ہیں تجھے
تیری یادیں، تیری سوچیں، تیرے سپنے جانِ جاں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
تیری جانب قافلوں کا راستہ چلتا نہیں
جاگنے تک یاد کا سُورج کبھی ڈھلتا نہیں
اب فضا میں پھیلتا ہے نا اُمیدی کا دُھواں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
میرے سر سے دُور ہے اب راحتوں کا سائباں
دیکھ کر کیسے میں چلتا تیرے قدموں کے نشاں
آرزوئیں کر رہی ہیں میرے دل کی دھجیاں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
نقش ہے دل پر مِرے عمّار کی ایک ایک بات
دور ہے وہ مجھ سے پر، اب بھی ہے میرے ساتھ ساتھ
اس کی یادوں کے اجالوں سے ہے روشن یہ مکاں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
ساتھ وہ تنہائی میں ہے، راز کی یہ بات ہے
لگتا ہے کہ ہر قدم پر میرا بیٹا ساتھ ہے
فاصلوں میں قُربتیں ہیں، قُربتوں میں دوریاں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
مونا اور عمّار دونوں ہی اثاثہ ہیں مِرا
رشتے تو باقی رہے، ٹُوٹا رہا پر رابطہ
بے سہارا کھینچتا کیسے، وہاں تک بادباں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
مونا اور عمّار بے شک ہیں مِرے گھر کے مکیں
دنیا والوں کو مگر، دونوں نظر آتے نہیں
دم قدم سے ان کے ہی آباد ہے میرا جہاں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
رب العزّت تجھ سے میری ایک یہ بھی ہے دعا
رکھنا ان پر گرمیوں کی دھوپ میں سایہ گھنا
میں کہوں پر تُو یہ مت کہنا اے رب دو جہاں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
کیا کہو ں عمّار کی ہر اک شرارت یاد ہے
مونا نے جتنی لُٹائی ہے محبت یاد ہے
میں بھی جی اٗٹھتا ہوں اب تو یاد کر کے شوخیاں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
عید اور تہوار بے شک، اب بھی آتے ہیں مگر
پیار میں کرتا ہوں جن سے، وہ نہیں آتے نظر
کس سے پوچھوں دُور کیسے ہوں مِری تنہائیاں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
دیکھیے، تو جا بسے ہیں دونوں مجھ سے کوسوں دُور
مونا ہے دل کا سکوں، عمّار ہے آنکھوں کا نُور
ختم کب ہوں گی، خدا جانے مِری بے تابیاں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
گھر کا دروازہ کُھلا رکھتا ہوں اکثر رات بھر
ملنے کو شاید چلے آئیں وہ، مجھ سے اپنے گھر
عید سے پہلے ہی ہو گا، عید کا گھر میں سماں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
جب بھی ہو ممکن چلے تم آؤ، دونوں میرے پاس
کہہ رہی ہے میری آنکھوں کی نمی، دل ہے اُداس
دُور ہو سکتی ہیں، یہ دونوں طرف کی دُوریاں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
مونا اور عمّار کا رہتا ہے ہر دم انتظار
جا چکا پت جھڑ، نظر آنے لگے رنگِ بہار
تم بھی لوٹ آؤ تو اب لوٹ آئیں گی رعنائیاں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
دُور ہو نظروں سے یوں دیدار کر سکتا نہیں
پیار تو کرتا ہوں میں، اظہار کر سکتا نہیں
کیا کہوں ہے بے زبانی جانِ من! میری زباں
اک سمندر درمیاں ہے، اک سمندر درمیاں
انجم معین بلے
No comments:
Post a Comment