Monday, 14 August 2023

اب اس کو سوچ کے ہی دل اچھل اچھل رہا ہے

 اب اس کو سوچ کے ہی دل اچھل اچھل رہا ہے

کتابِ روح میں جو صورتِ غزل رہا ہے

ملیں گی صحرا سے اک روز باقیات مِری

کہ رفتہ رفتہ سمندر جگہ بدل رہا ہے

یہ ایک رمز نہیں ہے شعوری کوشش ہے

کہ پست ہونا مِری رفعتوں میں ڈھل رہا ہے

طلب کروں گا میں پہچان اپنی اب کس سے

کہ مجھ کو دیکھ کے آئینہ بھی پگھل رہا ہے

بضد ہو جانے پہ کیسے یہ جانتے ہوئے بھی

تمہارے رحم و کرم پر چراغ جل رہا ہے

چلو کہ اپنا ٹھکانہ بنائیں اور کہیں

پرانے قصے یہاں وقت اب اگل رہا ہے

خبر نہیں کہ کہاں پر یہ گِر رہے عادل

خلا کی پشت سے اب آسماں پھسل رہا ہے


عادل گوہر

No comments:

Post a Comment