Friday, 11 August 2023

اپنا مرا وہاں پہ کوئی بس نہیں رہا

 اپنا مِرا وہاں پہ کوئی بس نہیں رہا

رہنے کو جی نہیں تھا مِرا، پس، نہیں رہا

دو آتشہ سے کم نہ ہو آبِ گِراں خمار

صہبائے نِیم رس سے کبھی مَس نہیں رہا

فطرت وہی ہے، زہر وہی، سانپ بھی وہی

پھنکار تو رہا ہے، مگر ڈس نہیں رہا

مکر و فریب سے مجھے کر تو لیا ہے زیر

مشکیں مگر حریف مِری کس نہیں رہا

اتنی بھی شاید اب مِری وقعت نہیں رہی

حاسد بھی مجھ پہ فقرہ کوئی کس نہیں رہا

پُتلا رہا خطاؤں کا وہ ساری زندگی

میں بھی بزعمِ خویش مقدس نہیں رہا

اپنی ہی فکر کرنے کی نوبت بھی آ گئی

یاسر! خیال ہر کس و ناکس نہیں رہا


خالد اقبال یاسر 

No comments:

Post a Comment