وقت کی بات
وقت حیران نگاہوں سے مجھے دیکھتا ہے
دیکھ کر حال کو شاید اسے ماضی کا خیال آتا ہے
وقت جب بھی کسی زرتاب و حسیں ماضی کے گہنائے ہوئے
حال سے دو چار ہوا کانپ اٹھا
اس کو معلوم نہیں ہے ماضی
کس طرح حال کے سانچے میں بگڑ جاتا ہے
تُو مگر جانتی ہے
تلخئ زیست دمکتے ہوئے شاداب و جواں چہروں کو
کیسے افسردہ و پژ مُردہ بنا دیتی ہے
کسی طرح شامِ خزاں صبحِ بہاراں بکھر جاتی ہے
تُو مجھے دیکھ کر حیران نہ ہو
میں وہی ہوں تُو جسے حاصلِ امید کہا کرتی تھی
میں وہی ہوں تُو جسے پہلے پہل دیکھ کے چونک اٹھی تھی
اور اب دیکھ کے یہ حال مِرے ماضی کا حیران ہے تُو
دیکھ حیران نہ ہو
وقت حیرانی پہ مجبور ہے معلوم نہیں ہے اس کو
ماضی کیوں حال کے سانچے میں بگڑ جاتا ہے
اور تُو وقت نہیں
احمد راہی
No comments:
Post a Comment