ایک حشر اٹھا رکھا ہے میرے من میں
یہ آگ کیوں بھڑکتی ہے میرے تن میں
مل جائیں مجھ کو سبھی الجھنوں کے جواب
کھول لوں گر میں تیرے عشق کی کتاب
میرے دل کی تیرگی چھٹ جائے ایک بار
میری روح کے صحرا میں ہو تیرے عشق کی بہار
شمع جو پگھلتی ہے جلنے سے یا رب
میرے دل کو بھی پگھلا دے عشق سے یا رب
یہ درد خود ہی دے گا اس درد سے نجات
یہ تشنگی بن جائے گی خود ہی آب حیات
زندگی فانی ہے زندگی کو بقاء ہو جائے
میری ذات گر تیری ذات میں فنا ہو جائے
سعدیہ زاہد
No comments:
Post a Comment