ہر ایک ذرے کی دلکشی میں، دمک رہا ہے ضمیر اپنا
سدا مہکتی رہے وہ مٹی، اٹھا ہے جس سے خمیر اپنا
بنی ہوئی ہیں نشانِ منزل تمام تر اس کی شاہرائیں
جواب رکھتا نہیں جہاں میں، یہ خطۂ بے نظیر اپنا
مِرے بھٹکنے کا زندگی بھر، نہیں کوئی احتمال یارو
کہ میں نے اس دشت کی ہوا کو بنا لیا دستگیر اپنا
جو رُوبرو کوئی دوست ہو تو نظر مِری پھول بن کے برسے
اگر مقابل ہو کوئی دشمن خطا نہ جائے گا تیر اپنا
قتیل اپنی سرشت میں ہے تمام دنیا کی خیر خواہی
کہ ہم نے ہر سُو محبتوں کو بنا کے بھیجا سفیر اپنا
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment